سورہ عبس کا تعارف و زمانہ نزول
لغوی معنی :
لفظ " عبس " کے چند ایک معنی ذیل میں دیئے جا رہے
ہیں ۔
الحاج
مولوی فیروز الدین رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہین : عبس ،کج خلقی ،ترش روئی
ڈاکٹر
محمد عبدالطیف لکھتے ہیں : عبس ،عبوس ،تندخو ،سخت ،ترش رو
نام
اس سورت
کا نام عبس ہے جو اس سورت کا پہلا کلمہ ہے ۔ اس میں ایک رکوع ،بیالیس آیتیں ،ایک
سو تیس (130) کلمات اور پانچ سو تینتیس (533) حروف ہیں ۔
وجہ تسمیہ :
سورۃ
کا نام سورۃ عبس اس لیے کہا کہ :
اس
کے نزول کا باعث عبوس یعنی ترش روئی ہے ۔
شان نزول
کرم
شاہ الازہری ؒ "تفسیر روح المعانی " سے نقل کرتے ہیں :
" حضرت
عبداللہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ جو ام المؤ منین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہ
کے خالوزاد بھائی تھے ۔ او ر ان خوش نصیبوں میں سےتھے جن کا شمار "السابقون
الاون " میں ہوتا ہے۔ یہ نابینا تھے
۔ ایک روز بارگاہ رسالت میں شیبہ ،عتبہ ،پسران ربیعہ ،ابو جہل ،امیہ بن خلف ،ولید
بن مغیرہ ،عباس ابن عبدالمطلب اور دیگر
رؤسا ء قریش حاضر تھے حضور اکرم ﷺ بڑی دلسوزی اور محبوبیت سے انہیں کفرو شرک کے
اندھیروں سے نکالنے کی سعی فرما رہے تھے ۔ حریض علیکم کی شان اپنے پورے جوبن پر
تھی ۔دریں اثناء عبدا بن مکتوم رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے ،نابینا ہونے کی وجہ سے
محفل کا رنگ نہ دیکھ سکے انہوں نے اپنے شوق فراواں سے مجبور ہو کر آتے ہی عرض کی
یارسول اللہ ﷺ
علمنی مما علمک
اللہ
"
اے اللہ کے رسول جو اللہ نے آپ کو سکھایا اس میں مجھے سکھائیے "
یہ
مداخلت بیجا حضور اکرم ﷺ کو پسند نہ آئی ،رخ انور پر ناگواری کے آثار نمایاں ہوئے
، آداب مجلس کا تقاضا بھی یہی تھا کہ جو سلسلہ کلام پہلے شروع ہے وہ ختم ہو جائے
تو نئی بات چھیڑی جائے یہاں تو حضور اکرم ﷺ تبلیغ کا نہایت اہم فریضہ ادا کرنے میں
مصروف تھے ۔عبداللہ پہلے ہی مسلمان ہو چکے تھے ۔ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان
کے پاس بے شمار مواقع تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے عبداللہ کی دلجوئی کرتے ہوئے یہ
سورہ مبارکہ نازل فرمائی تاکہ دنیا کو پتہ چل جائے کہ اس بارگاہ رسالت میں شکستہ دلوں اور سوختہ
جگروں کی جو قدرو منزلت ہے وہ کسی اور کی نہیں
سورت کا ترتیب نزول
سورہ
عبس کا ترتیب نزو ل کے لحاظ سے چوبیسواں نمبر ہے اس پہلے سورت النجم ہے اور بعد
میں القدر نازل ہوئی ۔
ترتیب توقیفی :
توقیفی
ترتیب کے لحاظ سے عبس کا نمبر اسی (۸۰)ہے ۔
حدیث نبوی سے عبس کی تفسیر :
جامع
ترمذی میں سورۃ عبس کی تفسیر یوں ذکر ہے :
حضرت
ابن عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے
دن تم لوگ ننگے سر ننگے بدن اور بغیر ختنہ کے اٹھائے جاؤ گے ۔ایک عورت نے پوچھا
کیا سب ایک دوسرے کا ستر دیکھیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اے فلاں عورت
لِکُلِ امرِی
مِنھُم یَومئِذ شَان یُغنِیہ
(ہر
مرد کو ان میں سے اس دن ایک فکر لگا ہوا ہے جو اس کے لیے کافی ہے ۔ عبس۔ آیت ۳۷)
یہ
حدیث حسن ہے اور کئی سندوں سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ۔
مضامین :
اس
سورت کے پیرا گراف قوی اور واضح ہیں اور اس میں بعض اہم حقائق بیان ہوئے ہیں جن کے
گہرئے اثرات ایک طرف عقل و خرد کے تاروں کو چھیڑ کر شعور میں ارعاش پیدا کیا گیا
ہے اور دوسری جانب کانوں میں نہایت ہی میٹھا نغمہ گونجتا ہے ۔
·
پہلے پیرے میں سیرت النبوی ﷺ کے ایک مخصوص واقعہ کا تبصرہ
ہوا ہے ۔
·
پاکیزہ صحیفوں ،انسان کی پیدائش اور میوہ جات کا بیان
· انعامات خداوندی ،حشر میں پوچھ گچھ کا بیان
No comments:
Post a Comment
Please not enter spam links/website links in the comment box . Strictly forbidden.