حضرت
طلحہ بن عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نام:
آپ کا نام "طلحہ
" ہے۔
شجرہ نسب:
طلحہ
بن عبید اللہ بن عثمان بن عامر بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن نوی بن غالب
بن فہر بن مالک
آپ کا سلسلہ نسب
ساتویں پشت پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اورتیسری پشت پر سیدنا ابو بکر صدیق
ملتا ہے۔
خاندان:
آپ کا تعلق قریش کی
شاخ "بنو تیم" سے تھا۔
پیدائش:
آپ کی پیدائش نبوی
صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ۲۴ برس قبل ہوئی۔
کنیت:
آپ کی کنیت "ابو
محمد" تھی جو انکے بیٹے کے نام پر تھی۔
لقب:
خود حضرت طلحہ بن
عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے احد
کے دن میرا نام "طلحۃ الخیر" رکھا۔ غزوہ العشیرہ کے دن "طلحہ
الفیاض"۔
غزو ہ حنین کے دن "طلحۃ الجواد" رکھا۔
آپ کی سخاوت اور جو دو عطا کی وجہ سے آپ کو "طلحۃ الخیر" اور طلہ
الفیاض کے القاب نوازے گئے۔
والدین:
آپ کے والد کا نام
"عبید اللہ" تھا ان کو اسلام کی نعمت نصیب ہوئی آپ کی والدہ کا نام
"صبعہ" تھا آپ کی والدہ اسلام کی نعمت
سے سرفراز ہوئیں۔
قبل از اسلام:
آپ کا شمار مکہ کے ان
گن چنے اشخاص میں ہوتا تھا جو قبل از اسلام پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے آپ کا پیشہ
تجارت تھا آپ تجارت کی غرض سے دوسرے ممالک شام، عراق، یمن کی طرف جایا کرتے تھے۔
قبول اسلام:
حضرت طلحہ بن عبید اللہ
نے سترہ یا اٹھارہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دن
تجارتی اغراض سے بصرہ تشریف لے گئے وہاں ایک راہب نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کوحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے معبوث ہونے کی بشارت دی جب آپ مکہ واپس
آئے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحبت اور ان کے مخلصانہ وعظ و نصیحت نے تمام شک رفع کر دیئے
چنانچہ ایک روز حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وساطت سے دربارِ رسالت میں حاضر ہوئے اور ایمان
سے مشرف ہو کر واپس لوٹ۔
شادی:
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مختلف اوقات میں چا رشادیاں کیں
ان کی ایک بہن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عقد میں تھی۔ ۱۔ امِ کلثوم
بنت ابی بکر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
کی بہن تھیں۲۔ حمنہ بنت محبش حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہن تھیں ۔
۳۔ فارعہ بنت ابی سفیان حضرت ام حبیبہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہن۴۔ رقیہ بن
ابی امیہ حضرت سلمہ کی بہن تھیں
ان سے جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو اولاد ہوائی ان میں دس بیٹے اور چار
بیٹیاں تھیں۔
ذریعہ معاش:
قریش کے دوسرے لوگوں کی
طرح آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تجارت کے پیشے سے منسلک تھے۔
ملکی زندگی:
جب آپ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ نے اسلام قبول کیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح
بہت سے مصائب کا سامنہ کرنا پڑا جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تو نوفل بن حویلدان دونوں کو ایک ہی
رسی میں باندھ دیتا بنو تیم والے آپ کو اس سے بچانے کی سکت نہ رکھتے تھے۔
اسی وجہ سے آپ دونوں اصحاب کو "قرینان" کہا جاتا ہے۔
ہجرت مدینہ:
جب حضرت محمد صلی اللہ
علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ ہجرت کر کے آرہے
تھے تو راسے میں ان کو حضرت طلحہ ملے جو اپنے تجارتی قافلے کے ساتھ شام واپس آرہے
تھے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت ابو
بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شامی
لباس پیش کیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم :
مدینہ کے لوگ بے چینی
سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس کے بعد حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکہ
آکر اپنے تجارتی کاروبار سے فراغت حاصل کی
اور اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اہل و عیال کو لے کر مکہ
سے مدینہ روانہ ہوئے۔
مکہ میں حضور صلی اللہ
علیہ وآلہٖ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عقد مواخاۃ حضرت زبیر بن عوام رضی
اللہ تعالیٰ عنہ سے کروایا ۔ جب آپ مدینہ تشریف لائے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت کعب بن مالک رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عقد مورخاۃ کرایا۔
No comments:
Post a Comment
Please not enter spam links/website links in the comment box . Strictly forbidden.