Hazrat Alama Ghulam Rasool Saeedi ki life - E-Learn

Latest

Easy Way To Learn

Sponser

Hazrat Alama Ghulam Rasool Saeedi ki life

 حضرت علامہ غلام رسول سعیدیؒ کا مختصر تعارف و سوانح حیات

پیدائش:

علامہ  غلام الرسول  سعیدیؒ مدظلہ العالی 10رمضان المبارک 1356ھ/14نومبر1938ءبروز اتوار دہلی میں پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام محمد منیر ہے جو اپ کے بچپن میں ہی انتقال کر گئے ان کے وصال کے بعد آپ کی والدہ  محترمہ نے اپ کی پرورش اور تعلیم و تربیت بڑی توجہ کی۔

ابتدائی تعلیم:

 6سال کی عمر میں آپ نے اپنی والدہ محترمہ کے پاس ناظرہ قرآن مجید مکمل کیا اور دس سال کی عمر میں آپ نے پنجابی اسلامیہ ہائی سکول بارہ ٹوٹی دہلی میں پرائمری تک یہی پڑھا تھا اور ابھی تعلیمی سلسلہ جاری تھا کہ برصغیر کی تقسیم عمل میں آئیاور آپ نے ہندوستان سے ہجرت فرمائی اور1947ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان تشریف لائے اور اپنے خاندان کے ساتھ عروس البلاد کراچی میں اقامت پزیر ہو گئے

خاندا نی پسِ منظر :

 آپ کے والد گرامی جناب محمد منیر صاحب نے اپنی زندگی میں (یکے بعد از وفات زوج) پانچ شادیاں کیں اور علامہ سعید ساحب آپکی پانچویں اہلیہ کے بطن سےپیدا ہوئے آپؒ  کے والد صاحب کی وفات کے بعد آپ کی   والدہ محترمہ نے دوسری  شادی کر لی۔ اس کے بطن سے  آپ کا ایک بھائی محمد خلیل اور ایک بہن پیدا ہوئی ان کے والد صاحب کا نام عثمان ہے جبکہ آپکے والد حقیقی کی  اولاد میں چار بھائی  اور ایک بہن پیدا ہوئی۔

حصول علم  کی ابتداء:

 حوادث روزگار کی  وجہ سے آپ نے ایک پریس میں بطور کمپیوٹر ملاز مت اختیار کر لی۔آپ کے والد صاحب اور بڑے بھائی مسلکا اہل حدیث تھے ۔لیکن جب آپؒ صلاۃ وسلام کی ایمان افروز اور روح پرور آواز سنتے تو مودب ہو کر کھڑے ہو جاتے۔یہ بات گھروالوں کیلیے بڑی عجیب تھی۔پریس کی ملازمت کے دوران آرام باغ کی جامع مسجد میں جمعہ ادا کرتے وہاں درود وسلام  عظمت رسولؐ اور احترام  اولیاء اللہ کی انمول دولت ملتی ۔ایک مرتبہ آپؒ کا رجحان تعلیم کی طرف متوجہ ہوا آپ نے قرآن پاک کے ترجمے پر غور کرنا شروع کیا لیکن جب آپ قرآن پاک میں ناموس رسالت اور عظمت مصطفٰی کا مقام آتا بعض مولوی حضرات ترجمہ میں  انتہائی بخل سے کام لیتے دیکھائی دیتے چنانچہ آپ کے  پاکیزہ قلب اور ذہن میں علم دین کے حصول کا نیا  ذوق اور تجسس  پیدا ہو گیا۔چنانچہ انہی دنوں جامعہ محمدیہ رضویہ کی طرف سے طالبان کےلیے داخلہ کا اشتہار چھپوایا تو آپ نے حصول علم دین کی خاطر ملازمت ترک کر دی اور چھوڑکر جامعہ رضویہ پہنچ گئے دورانِ تعلیم آپ کو درس نظامی کے ساتھ ساتھ امام اہل سنت اعلٰی حضرت امام احمد رضا بریلویؒ کے تعینات کے مطالعہ کا موقع ملا۔        

حصول علم کی لگن :

علامہ غلام الرسول سعیدی نے علوم دینہ کے اصول میں بڑی محنت و مشقت کی اور نہایت محنت اور ذوق اور لگن سے علم حاصل کیا۔علم کی لگن اور تشنگی کا اندازہ آپ اس واقعہ سے لگائیں ۔

علامہ عبدالحکیم شرف قادری صاحب کا قول:

مجھے وہ منظر کبھی نہیں بولتا جب مولانا  غلام الرسول سعیدی صاحب صبح کے سات آٹھ بجے کتابوں کا انبار اٹھائے ہوئے تو ایک طالب علم نے مسکراتے ہوئے کہا کہ استاد صاحب تو ڈھوک ڈھمن(اپنے گھر)چلےگئے ہیں ۔علامہ صاحب اتنے افسردہ ہوئے کی ان کے آنکھوں میں آنسو آگئے ہیں  کہنے لگے ہم لوگ رات بھرمطالعہ کرتے رہے اور نماز فجر کے بعد بھی تیاری کرتے رہے لیکن استاد صاحب چپ چاپ گھر چلے گئے آج  طالبا میں اشفاق علم کی یہ فراوانی کیاں یہی وجہ ہے کہ انہیں علمی کمال بھی تو حاصل نہیں ہوتا۔        

اساتذہ و مشائخ:

آپ نے اپنے وقت کے انتہائی جلیل القدر ارباب علم سے اکتساب فیض کیا۔جامعہ محمدیہ رضویہ (رحیم یار خان ) مولا عبد الحمید صاحب کی خدمت میں آپ تقریبا ایک سال چھ ماہ تک صرف و نحو ،ادب و فقہ کی چند  ابتدائی کتب  پڑھتے  رہے پھر اپنے استاد صاحب کے ساتھ سراج العلوم (خان پور )تشریف لائے ،قطبی،شرح جامی ،سلم العلوم ہدیۃ الحکمت اور تفسیر ملا لیں مفتی محمد حسین نعیمی ؒ سے پڑھیں جبکہ تلخیص المفتاح کے چند اسباق ھضرت مولا مفتی عزیز احمد سے پڑ ھے ۔ذوق علم کی مذید طلب آپکو لاہور سے جامعہ امدایہ  مظہریہ  بندیال ( ضلع خوشاب) لے گئی جہاں رئیس المناطقہ استاذ المدرسین حضرت علامہ عطا محمد بندیالوی چشتی ؒ سے معقول و منقول کی گئی کتابیں مثلا مختصر المعانی ،قاضی مبارک ،حمیداللہ ،شمس البازغہ،مطول ،مسلم الثبوت ،توضیح تلویح اور فقہ میں ہدایہ  آخرین اور حدیث شریف میں مشکٰوۃ المصابیج اور جامع ترمذی شریف کو با لالتزم پڑھا۔

مسند تدریس:

1922ء   میں علامہ غلام رسول سعیدی صاحب نے علوم دینیہ کی  تکمیل مکمل فرمائی ور اسی سال آپ نے جامعہ نعیمیہ لا ہور میں اپنی تدریسی زندگی آغاز کیا اور مسند تدریس کو زینت بخشی ۔ابتداء میں آپ نے دو،تین اسباق پڑھے تھے لیکن جب طلبہ میں آپکی مقبولیت بڑھنے لگی تو آپ کے استاد محترم اور مہتمم جامعہ نعیمیہ ،مفتی محمد حسین نعیمی صاحب نے مختلف علوم و فنون کےکئی اسباق آپ کی طرف منتقل کر دیے اور  اپ 1970ء سے مکمل دورہ احادیث بڑھانے لگے ۔اس طرح آپ کا علمی و روحانی فیض مزید وسیع ہو گیا۔6جولائی 1985ء کو جسٹس حضرت علامہ ڈاکٹر مفتی سید شجاعت علی قادری(بانی و مہتمم دارالعلوم نعیمیہ) کے بے حد اصرار پر کراچی میں رونق افروز ہوئے اور دار العلوم نعمیہ میں شیخ الحدیث اسے عظیم اور عالی منصب پر فائز ہوئے تو طالبان ،فوج در فوج، دارالعلوم نعیمیہ میں داخل ہونے لگے اور اپنی علمی پیاس بجھانے لگے۔

علمی مقام و مرتبہ:

مقام  غور و فکر یہ ہے کہ علامہ غلام رسول سعیدی صاحب1958ء میں تقریبا 21 سال کی عمر میں دین کی طر ف متوجہ ہوئے اور دن رات تحصیل علم میں لگے رہے اور آج الحمد اللہ  اس ارفع واعلٰی مقام پر فائز ہیں کہ تمام دنیا میں آپ کے شاگرد موجود ہیں اور وہ بھی تعلیم و تدریس میں  مصروف عمل ہیں اور اپنے دین مبین کی خدمت کر رہے ہیں۔علامہ غلام رسول سعیدی صاحب بلاشبہ ہمارے عہد کے عظیم مفسر،محدث،فقیہ اور محقق ہیں۔

تصانیف:

v               شرح صحیح مسلم

v               تفسیر تبیان القرآن

v               نعمۃ  الباری شرح صیحح البخاری

مشہور تلامذہ:

آپ کے مشہور و معروف اور نامور تلامذہ یہ ہیں:

v               مولانا محمد سید اشرف

v               مولانا محمد عرفان

v               مولانا محمد انصر

v               مولانا علی عمران صدیقی

v               مولانا محمد آصف انصاری

v               پروفیسر مولانا محمد مقصود احمد

v               مولانا پیر عبدالحلیم سرہندی،مولانا محمد سابر نورانی

v               مولانا محمد عارف چشتی،مولانا عطاء محمد گولڑی

ملکی خدمات: حضرت علامہ غلام رسول سعیدی صاحب ابھی نو عمر تھے14 اگست کو پاکستان اس خطہ ءارضی پر دو قومی نظریہ کی بنیاد پر اور اسلا می ریاست کے طور پر معرض وجود میں آیا۔تو آپ بھی ہندوستان سے ہجرت کرکے اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان تشریف لائے آپ کے دل میں پاکستان کے لیے بے پناہ محبت ہے آپ دین اور وطن کے لیے ہر وقت یہ دعا کرتے رہتے:

"پاکستان ہمیشہ ترقی پہ ترقی کرتا رہے اور یہ اسلا م کا مضبوط قلعہ ثابت ہو اور امن و امان کا حقیقی گہوارہ بن جائے"(آمین)


رکن اسلامی نظریاتی کونسل:

مملکت خداداد پاکستان میں آپ نے بھی بڑا اعلیٰ اور مثالی کردار ادا کیا۔ آپ نے 1991ء سے1992ء تک مرکزی رویت ہلال کمیٹی آف پاکستان کے مر کزی رکن رہے ہیں اس کے علاوہ آپؒ "اسلامی نظریاتی کونسل"آف پاکستان کے رکن بھی رہے۔اسکی رکنیت کی میعاد تین سال  چنانچہ آپ فروری 1997ء میں اس کے رکن منتخب ہوئے اور فروری 1999ءتک آپ اس کے رکن رہے۔

جسٹس کے عہد و منصب کی پیشکش:

جناب جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن صاحب نے متعدد ذرائع سے ایک سال تک مسلسل کوشش کی کہ حضرت علامہ سعیدی صاحب وفاقی عدالت میں جسٹس کا عہدہ قبول کر لیں۔لیکن علامہ سعیدی صاحب نے یہ کہہ کر پیشکش مسترد کر دی کہ میں عدالت کی ذمہ داریاں قبول کرنے کے بعد"شرح صیحح مسلم"کو پایہء تکمیل تک پہنچا سکوں گا اور میرا درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کا کام بہت متاثر ہوگا۔

وفات:

حضرت علامہ غلام رسول سعیدی صاحب 79 برس کی عمر میں مورخہ5فروری 2016ء کو انتقال کر گئے ،علامہ سعیدی کی تدفین جامع مسجد اقصٰی کے احاطے میں کی گئی

No comments:

Post a Comment

Please not enter spam links/website links in the comment box . Strictly forbidden.

Youtube Channel Image
Islamic Media | Malik Kashif Raza Please Subscribe to My YouTube Channel for New Islamic Videos
Subscribe