فضیلت
صحابہ قرآن مجید کی روشنی میں
پیر محمد کرم شا ہ
ضیاء القرآن میں اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس آیت میں مہاجرین
و انصار کا ذکر ہے جنہوں نے اللہ کے نبی کی دعوت کو اس وقت قبول کیا جب اس کو قبول
کرنا ہزاروں مصیبتوں اور تکلیفوں کو دعوت دینا تھا اور ان اصحاب نے اس وقت خود اسلام
کی امانت کےلیے پیش کیا جب اسلام بڑی بے کسی کی حالت میں تھا اور اللہ تعالیٰ
کواپنے ان مخلص جانباز اور پاکباز بندوں پر ناز ہے جنہوں نے محض حق کے لیے حق کو
قبول کیا اور اسلام کو فروغ اور مرتبہ کمال تک پہنچانے کے لیے اپنے وطن اور خونی
رشتے چھوڑے اور سر کٹائے ۔
رَّضِيَ ٱللَّهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُواْ عَنۡهُۚ
قرآن
مجید بتاتا اللہ تعالیٰ اپنے ان مخلص جانباز اور پاک باز بندوں سے راضی ہو گیا اور
اس کے ان بندوں نے جب دیکھا کران کے رب
کریم نے ان کی قربانیوں کو شرفِ قبول عطا فرمایا تو اس کی شان بندہ پروری اور زرہ
نوازی کو دیکھ کر راضی ہو گئے اور اللہ نے ان کو جنت کی ابدی نعمتوں سے نوازا اور
صر ف یہی نہیں بلکہ قیامت تک جو بھی خلوص و دیانت سے ان کی پیروی کرے گا وہ بھی
عنایت ربانی کا مستحق ہو گا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہ کی شان ظاہر و باطن
کے جاننے والے خدا نے خود ہی اپنی مقدس کتاب میں بیان فرماد دی۔
قاضی ثنا ء اللہ پانی پتی تفسیر مظہری میں اس آیت
والسبقون الاولون من المہجرین والنصار
کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
مہاجرین
سے مراد وہ لوگ جنہوں نے اپنی قوم کو چھوڑا تعلق قطع کیے اور اپنے ایمان کے تحفظ
کی خاطر اپنے وطن اپنے مال سب کو خیرآباد کیاانصارسے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے
رسولصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدد کی اور ان کو اور ان کے صحابہ کو اپنے ہاں جگہ دی جبکہ انکی قوم نے انکو اپنے وطن سے
بے وطن کر دیا تھا۔
بعض فریقین میں اسابقین کے متطلق اختلاف پایا جاتا ہے۔
کسی
نے کہا سابقین وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی
کسی نے کہا اہل بدر ہیں بعض فرماتے ہیں بیعتِ الرضوان کے وقت جو لوگ موجود
تھے وہ سابقین ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ مہاجرین میں سے آٹھ افراد جو سب سے پہلے ایمان
لاے اور ان کی اتباع میں لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے وہ لوگ یہ ہیں۔
حضرت
ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، زبیر بن الحارثہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عثمان بن عمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت زبیر بن عوام رضی
اللہ تعالیٰ عنہ، حضڑت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت سعد بن ابی
وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں بعض
نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور بعض نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا
نام لیا ہے۔ بعض حضرات نے ان لوگوں کو اسابقین میں شامل کیا ہے۔ جنہوں نےبیعت عقبہ
میں شرکت کی۔
قاضی ثنا ء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں کہ:
میرے نزدیک یہ بھی ممکن ہے کہ اسابقین سے مراد مقربین ہوں
جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَٱلسَّٰبِقُونَٱلسَّٰبِقُونَ أُوْلَٰٓئِكَ ٱلۡمُقَرَّبُونَ فِي جَنَّٰتِ
ٱلنَّعِيمِ ١٢ ثُلَّة مِّنَ ٱلۡأَوَّلِينَ
یعنی سابقین سے مراد صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین
ہیں کیونکہ اس امت میں یہی لوگ اولین ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں رسول صلی
اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
"میرے
صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جو کوئی ان کی اقتدار پر چلے گا ہدایت پائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی اطاعت کو شرف قبولیت بخشا اور
ان کے اعمال حسنہ پر اپنی رضا کا اظہار فرمایا اور وہ بھی اس کے رب ہونے اور اسلام
کے دین اور محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے برحق ہونے پر راضی ہیں۔ کیونکہ اس قدر
دان رب نے انکو اپنی محبت عطا فرمائی اور انہوں نے اسلام کی برکت اور نبی کی اطاعت
کے سبب دنیوی اور اخروی نعمتوں کو اپنے دامن میں سمیٹا ہے۔
مُّحَمَّد رَّسُولُ ٱللَّهِۚ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ
أَشِدَّآءُ عَلَى ٱلۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡۖ تَرَىٰهُمۡ رُكَّعٗا
سُجَّدٗا يَبۡتَغُونَ فَضۡلٗا مِّنَ ٱللَّهِ وَرِضۡوَٰنٗاۖ
محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ
ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں تم جب بھی ان کو دیکھو گئے
رکوع و سجود کرتے اور اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں
مشغول پاؤ گئے سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے
ہیں۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ
وآلہٖ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی توصیف بیان فرما رہے ہیں کہ میرے
رسول پر ایمان لانے والے اور ان کی صحبت سے فیض یاب ہونےوالے کفار کے مقابلے میں
بڑے بہادر، طاقتور ہیں لیکن ظلم کے سامنے اسے جھکا نہیں سکتے یہ بکا ؤ مال نہیں ہے
کہ دشمنان اسلام انکو خرید لیں۔
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَٰهَدُواْ فِي
سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱلَّذِينَ ءَاوَواْ وَّنَصَرُوٓاْ أُوْلَٰٓئِكَ هُمُ
ٱلۡمُؤۡمِنُونَ حَقّٗاۚ لَّهُم مَّغۡفِرَة وَرِزۡقكَرِيم٧٤ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ
مِنۢ بَعۡدُ وَهَاجَرُواْ وَجَٰهَدُواْ مَعَكُمۡ فَأُوْلَٰٓئِكَ مِنكُمۡۚ .
"اور وہ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی
راہ میں لڑے اور جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی وہی سچے ایمان والے ہیں، ان کے لیے
بخشش ہے اور عزت کی روزی اور جو بعد کو ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ
جہاد کیا وہ بھی تمہیں میں سے ہیں۔"
اس آیت مبارکہ میں حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے
صحابہ کرام کو بارگاہ الٰہی سے جو اولیک ھم
المومنون حقاًکا لقب عطا کیا جا
رہا ہے۔ یہ ان کی عمر بھر کی قربانیوں ، دل سوزیوں اورنیاز مندیوں کا بہترین صلہ
ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے رزق کریم کا وعدہ فرمایا اور ان
اصحاب کو دونوں جہانوں کی سعادتوں سے بہرہ ور فرمایا اور فرمایا اے میرے حبیب کے
جانباز صحابہ اور سرفروش ساتھیو! قیصرو کسریٰ کے خزانے تمہارے قدموں میں ڈھیر کر
دیئے جائیں گے اور اگر کوئی غلطی تم سے سرزد ہو گئی تو اسے معاف کر دیا جائے گا۔
لَّقَدۡ رَضِيَ ٱللَّهُ عَنِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ إِذۡ
يُبَايِعُونَكَ تَحۡتَ ٱلشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمۡ فَأَنزَلَ
ٱلسَّكِينَةَ عَلَيۡهِمۡ وَأَثَٰبَهُمۡ فَتۡحٗا قَرِيبٗا
بیشک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے
نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے تو ان پر اطمینان
اتارا اور انہیں جلد آنے والی فتح کا انعام دیا۔
اس آیت مبارکہ میں اس بیعت کا ذکر کیا گیا ہے جو حدیبیہ کے
مقام پر صحابہ کرام سے لی گئی تھی اس بیعت کو بیعتِ الرضوان کہا جاتا ہے کیونکہ
اللہ تعالیٰ نے ان اصحاب کے لیے اس آیت میں خوشخبری سنائی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا جنہوں نے اس خطر
ناک موقع پر جان کی بازی لگا دینے میں ذرہ برابر تامل نہ کیا اور رسول صلی اللہ
علیہ وآلہٖ وسلم ہاتھ پر بیعت کر کے ایک
اپنے صادق الا ایمان ہونے کا صریح
تبوت دیا۔ اسی بنا ء پر اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سند خوشنودی عطا فرمائی۔
رَّضِيَ ٱللَّهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُواْ عَنۡهُ۔
"اللہ
ان سے راضی ہوااور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔"
فضیلت صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ
وآلہٖ وسلم کی روشنی میں:
عَنْ عبداللہِ رضیِ اللہ تعالیٰ عنہ اَنِ النبی صلی اللہ
ِعلیہ وآلہٖ وسلم خَیْرِ النَّاسَ قَرّنیِ، ثُمَ الّذِیْنَ یَلَوْ نَھُمْ، ثُمّ
الّذِیْنَ یَلَوْ نھُمْ۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ
وسلم نے فرمایا بہترین زمانہ میرا زمانہ
ہے پھر ان لوگوں کا زمانہ جو اس کے بعد آئیں گئے (صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ
) پھر ان لوگوں کا جو اس کے بعد آئیں گے۔(تابعین)
قاَل رَسُوْل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اَصْحَابِی
کَالْجّوْمِ فَبِایّھِمْ اِقْتَدِ یْتُمْ اِھْتَدِ ئْتُمْ
رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
" میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں پس ان میں سے جس کی اقتدار پر چلو گئے
ہدایت پاؤ گئے"۔
فَقَالَ رَسُوْلَ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
لَاْتبْسُّوااحَدً مِنْ اَصْحَابَی فَاِنَّ احَدَ کُمْ لُوْ اَلنْفَقَ مِثْلَ
اَحَدِ کُمْ لُوْ اَنْفَقَ مِثْلَ اَحَدٍ ذ ھَبًامَا اَدْرَکَ مْدَّ اَحَدِ ھِمْ
وَلَا نصِیفہٌ
رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
"مت کہو برا میرے اصحاب میں سے کسی کو اس لیے کہ اگر کوئی تم میں سے احد
پہاڑ کے برابر سونا صرف کرے تو ان کے مدیا
آدھے مد کے برابر نہیں ہو سکتا ۔"
عن عمر قال
قال رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اکر مواصحابی فانھم خیارکم
حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے
فرمیا میرے اصحاب کی تعظیم کرو اس لیے کہ وہ تم میں سے نیک اور برگزیدہ ہیں۔
عن جابر عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قال لاتمس
النار مسلمارانی ورای من رانی
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےکہ
نبی کریم نے فرمایا:
"اس مسلمان کو دوزخ کی آگ نہیں چھوٹے گی جس نے مجھ کو
دیکھا ہو یا شخص کو دیکھا جس نے مجھ کو دیکھا ہو۔
No comments:
Post a Comment
Please not enter spam links/website links in the comment box . Strictly forbidden.