چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی (مخالفت)
خودہی میں ڈوب جا غافل یہ سیر زندگانی ہے
نکل کر حلقہ و شام و سحر
سے جاوداں ہو جا
گزر جا بن کے سیل تندرو؛ کوہ و بیاباں سے
گلستان
راہ مین آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا
صاحب صدر!
آج کی اس
شاندار تقریب میں قراردادِ مباحثہ کے بارے میں آپ بہت کچھ سن چکے اور شاید ابھی
کافی کچھ سننا پڑے۔ اپنے افکار کو مجتمع کر کے "چلو تم! ادھر کو، ہوا ہوا
جدھر کی" کی مخالفت کے لیے حاضر خدمت ہوں اور معتبر ایوان سے سوال کرتی ہوں
کہ ہواؤں کے ساتھ سفر کون کرتا ہے؟ غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔ کہ۔۔۔۔ گھاس پھوس،
گرد و غبار، دھول مٹی یا وہ تنکے پتے جو اپنا تعلق اپنے مرکز سے توڑ لیتے ہیں۔ شاخ
سے جدا ہو جاتے ہیں۔ بے سہارا ، بے کنارہ ہو کر اپنے آپ کو ہواؤں کے سپرد کردیتے
ہیں۔ اور بے لگام ہوائیں انہیں حوادث سے دو چار کر کے پاتال میں پھینک دیتی ہیں یا
بادِ مخالف سے گھبرا جانے والے وہ پر کٹے کبوتر ہیں جن کی منزل کا تعین ہوائیں
کرتی ہیں اور یہ ہوائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جنہیں اپنی منزل کا پتا نہیں وہ کسی کو منزل کا
نشان کیسے دکھا سکتی ہیں؟
ذی وقار! کسی سیانے نے شاید انہیں دیکھ کر کہا
ہو گا کہ اگر پڑوسی کا منہ لال دیکھو تو اپنا بھی کر لو چاہے تھپڑ مار کر کرنا
پڑے۔ اسی طرح یہ لوگ اپنی انا کا قتل کرتے ہیں۔ جذبات و احساسات کی نفی کرتے ہیں۔
اپنے ارادوں کی تصمیم ، اپنی خودی کی تجسیم، اپنی ہمت کی ترقیم اور اپنے حوصلے کی
تمیم کو سبوتاژ کرتے ہیں۔
یہ لوگ لکیر کے فقیر ہوتے ہیں، جو فیشن چل نکلا اس کی نقالی
شروع کر دی۔
ذی وقار! ہواؤں
کے ساتھ سفر کرنے کے دعویدار ایسا کیوں
کرتے ہیں؟ ان کی اصل بیماری احساس ِ کم تری ہے۔ جذبہ و
ولولہ کی کمی ہے۔ احساس ذمہ داری کی کمی کو پورا کرنے کے لیے یہ لوگ ہوا ئے زمانہ
کے ساتھ چلنے کو اپنی خوش نصیبی سمجھتے ہیں حالانکہ
ہوا کے ساتھ چل ہے تو کیا چلا ہے بھلا
مزا
تو تب ہے، ہواؤں کا رخ گھما دے ذرا
عزیز ہم وطنو! طاقتور انسان وہ ہے جو ہواؤں کے رخ پر نہیں
چلتا بلکہ ہواؤں کے رخ کو موڑتا چلا جاتا ہے۔ وہ وقت کا شکار نہیں ہوتا بلکہ اسے
شکا کرتا ہے۔ وہ زمانے کا مرکب نہیں بنتا بلکہ راکب بنتا ہے۔ وہ زمانے میں گم نہیں
ہوتا بلکہ زمان و مکان کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ وہ اقدار و اطوار کے تھپڑوں
کی زد میں نہیں آتا بلکہ ساحل ِ مراد بن کر انہیں نئی جہت عطا کرتا ہے۔ اسی لیے ہاتف
ِ غیب کی آواز انہیں یہ مثردہ سناتی ہے۔
خدائے لم بزل کا دستِ قدرت تو ، زبان تو ہے
یقین پید اکر اے غافل! کہ
مغلوب گماں تو ہے
پر ے ہے چراخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گرد راہ ہوں ، وہ کارواں تو ہے
صدرِ محفل! میں آج انہیں کمزور سے طاقتور بننے، پاتال سے
بامِ عروج پر آنے، پستی سے بلندی کی جانت محوِ پرواز ہونے، جمودو تعطل کو چھوڑ کر
انقلاب اپنانے اور تذبذب کے بجائے یقین محکم آزمانے کا پیغام دیتی ہوں۔
ہوا گر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی
پھر
یہ ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
چنانچہ اپنے آپ کو پہچاننے کے لیے انسان کو اپنی بنائی ہوئی روایات کے حصار کو توڑنا پڑتا ہے۔ ہواؤں کے خلاف لڑنا پڑتا ہے۔ بے لگام موجوں کو چیرنا پڑتا ہے۔ جنگ ِ خار سے جوئے شیرِ نکالنا پڑتی ہے۔
اپنی دنیا آپ پیدا کر ، اگر زندوں میں ہے
سرِ آدم ہے، ضمیر کن فکاں ہے زندگی
زندگانی کی حقیقت کو ہ کن کے دل سے پوچھ
جوئے شیرِ و تبشہ ء و سنگِ گراں ہے زندگی
وَ اُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللّٰهِ
No comments:
Post a Comment
Please not enter spam links/website links in the comment box . Strictly forbidden.