راشد منہاس شہید، نشان ِحیدر
نشانِ حیدر پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے ۔یہ اعزاز شیرِ خدا حضرت علی
ؓ کے نام سے موسوم ہے نشانِ حیدر ان شہداء کو دیا جاتا ہے جنھوں نے وطن کی ناموس
کے لیے کوئی غیر معمولی کارنامہ انجام دیا ہو ۔ راشد منہاس نشانِ حیدر پانے والے
چوتھے شہید ہیں ۔راشد منہاس پر یہ معلوماتی سبق دُرست تلفظ اور تاثرات سے پڑھیے۔
شہادت ہے مطلوب
و مقصود ِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی !
راشد منہاس ابھی
ایک بچہ ہی تھا کہ ایک دن بیمار ہو گیا اور کمبائنڈ ملٹری ہسپتال میں داخل کیا گیا
۔اتفاق سے ملک کے صدر بھی اسی ہسپتال میں تھے ۔اُن کی عیادت کے لیے بڑے بڑے افسران
آرہے تھے ایک دن فضائیہ کے سر براہ بھی عیادت کے لیے آئے ،بس پھر کیا تھا ،ننھا
راشد مچل گیا کہ وہ اُن کو ضرور دیکھے گا ۔اُس کے تایا زاد بھائی اُسے گود میں
اٹھا کر لے گئے تو وہ بہت خوش ہوا اور کہنے لگا ، " میں بھی ائیر مارشل بنوں گا "۔
راشد کو بچپن سے
ہی فضائیہ سے بہت محبت تھی ۔ان کے پسندیدہ کھلونوں اور تصاویر میں جہاز کو اوّلیت
حاصل ہوتی ۔دورانِ کھیل بھی وہ جہاز کی آواز سن کر رُک جاتے۔ ایک دن سب بہن بھائی
جھولا جھول رہے تھے ،راشد جھولے پر پیٹ کے بَل لیٹ گئے اور بازو پھیلا کر زور زور
سے کہنے لگے ، " دیکھیے! میں ہوائی جہاز بن گیا ہوں ۔" اسی طرح بچپن ہی
سے جہاز کے ماڈل اور مشینری سے اُنھیں حد درجہ دل چسپی رہی ۔
کاغذ اور تنکوں
کی مدد سے جہاز بنا کر اُڑانا بھی اُن کا پسندیدہ کھیل تھا ۔اس کے علاوہ بانی
پاکستان قائد اعظم کے پسندیدہ کھیل کرکٹ سے بھی اُنھیں بہت دل چسپی تھی ۔ان کا
مطالعہ بھی بہت اچھّا تھا ۔
راشد کے والد
اُنھیں انجینئر بنانا چاہتے تھے مگر راشد نے اپنی والدہ کی اجازت سے ایئر فورس کے
لیے انٹرویو دے دیا ۔پھر والد نے بھی ان کی خواہش کے مطابق اُنھیں فوج میں
جانے کی اجازت دے دی ۔اجازت ملتے ہی راشد 1968 میں پاک فضائیہ میں شامل ہوئے اور
تربیت کے لیے کوہاٹ چلے گئے ۔اساتذہ کی رائے تھی کہ راشد غیر معمولی ذہین ہیں اور
اِن میں کام کی لگن اور آگے بڑھنے کی صلاحیت بھی غیر معمولی ہے ۔
بہترین کارکردگی کی بنیاد پر اُنھیں
اعلیٰ تربیت کی غرض سے رسال پور بھیجا گیا ۔جون 1970 میں پشاور یونیورسٹی سے بی
۔ایس۔ سی کا امتحان پاس کیا ۔اس کے علاوہ سائنس ،الیکٹرونکس ،علم موسمیات اور
پرواز سے متعلق تمام علوم حاصل کیے ۔15 اگست 1971 ء کو اُن کی تعلیم مکمل ہوگئی اور وہ پائلٹ آفیسر
بن گئے ۔
اگست 1971ء میں وہ پائلٹ آفیسر بننے کے بعد خوشی خوشی اپنے گھر آئے ۔اپنی
تینوں بہنوں ،رعنا ،انجم اور راحت کو اپنے مستقبل کے عزائم سے آگاہ کیا ۔امی سے
دعائیں لیں ۔گھر سے رُخصت ہوتے وقت سب کو اللہ حافظ کہا ۔
20 اگست بروز جمعہ
راشد کی پہلی تنہا پر واز (سولو فلائٹ) تھی۔ آج وہ بے حد مسرور اور پُر عزم دکھائی
دے رہے تھے۔ راشد کو کنٹرول ٹاور سے پہلی کلئیر نس ملی، انہوں نے جہاز کو رَن
وے پر چلانا شروع کیا، آہستہ آہستہ جہاز
کی رفتار بڑ ھتی گئی۔ ابھی جہاز رن وے پر ہی تھا کہ انسٹرکٹر فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمن
ٹریک کے نزدیک پہنچ گیا۔ اُس نے جلدی سے اپنی کار سے اُتر کر راشد کو خطرے
کا سگنل دیا۔ راشد سمجھے کہ شاید طیارے
میں کوئی فنی خرابی پیدا ہو گئی ہے ۔ اس لیے وہ رُک گئے۔ مطیع الرحمن
نے جہاز رُکتے ہی جست لگائی اور کاک پٹ
میں داخل ہو کر پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ وہ
وردی کے بغیر تھا ،ایک لمحے کے لیے راشد
حیران ہوئے مگر دوسرے ہی لمحے وہ انسٹرکٹر کے خطرناک ارادوں سے آگاہ ہو گئے۔ اس
غدار ِ وطن نے طیارے میں بیٹھتے ہی وائرلیس پر اپنے دو ساتھیوں کو پیغام دیا ،
" میں جودھپور جارہا ہوں۔ تم میرے بیوی بچوں کے ساتھ ہندوستان ہائی
کمیشن میں تحفظ حاصل کرو۔"
اب
راشد پر پوری صورتحال واضح ہو چکی تھی مگر
اُن کے کچھ کرنے سے پہلے ہی غدار نے دُہرے کنٹرول کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے پر واز شروع کردی اور جہاز کا رُخ بھارت
کی طرف موڑ دیا۔ راشد نے فورا ماڑی پور
کراچی کے کنٹرول ٹاور سے رابطہ کیا
اور پیغام دیا ، " مجھے اغوا کیا جارہا ہے، تم مطیع الرحمن کے ساتھیوں کو ہندوستان ہائی
کمیشن میں پناہ نہ لینے دو۔"
یہ
پیغام سنتے ہی ساتھیوں نے راشد کو ہدایت
دی کہ جہاز کو اغوا نہ ہونے دیا جائے۔
غدار مطیع الرحمن نے راشد کو بےہوش کرنے کی بہت کوشش کی مگر اُنھوں نے اپنے حواس بحال رکھے۔ مطیع
الرحمن نہایت ماہر اور تجربے کا ر پائلٹ تھا
وہ وطن کی چند اہم دستاویزات بھارت لے جانا چاہتا تھا۔ یہی فیصلے کا وقت
تھا اور راشد منہاس نے فیصلہ کر لیا تھا
کہ ،
"
ہم ابد تک زندہ نہیں رہ سکتے اور موت ایک
بار آتی ہے۔
پھر
کیوں نہ یہ زندگی ہم اپنی ملّت اور وطن پر نچھاور کر دیں،
یہ
کرنا تو آسان ہے۔"
وہ
اب انسٹرکٹر سے گُتھم گُتھا ہو گئے وہ پر واز نیچی کرنا چاہ رہا تھا کیونکہ اُس کے
پاس گیس ماسک نہیں تھا۔ مگر راشد طیارہ بلندی پر لے جانا چاہتے تھے مگر اس چالاک
شخص نے ایسا ہونے نہیں دیا۔ بد قسمتی سے کنٹرول ٹاور سے بھی رابطہ ٹوٹ گیا۔ مگر
راشد کے عزائم اور حوصلے مزید بلند ہو گئے تھے اور اُنھوں نے پوری قوت
سے وہ آلہ دبا دیا جو جہاز کو نیچے گرا
دیتا ہے۔ اب جہاز ہولناک رفتار سے زمین کی طرف آنے لگا ۔ غدار کو موت نظر آنے
لگی اور وہ گھبرا گیا وہ طیارے کو اوپر لے جانے کی کوشش کر رہا تھا مگر راشد اپنا
مشن پورا کر چکے تھے۔ اُنھیں اپنے اردگرد یہ آواز سنائی دیتی تھی۔
اے
راہِ حق کے شہیدو ! وفا کی تصویرو
تمھیں
وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
17 فروری 1951 ءمیں کر اچی میں پیدا ہونے والے
راشد منہاس نے 20 اگست 1971 ء کو صرف بیس
سال کی عمر میں جامِ شہادت نوش کیا ۔ انھیں
اس عظیم خدمت پر وطن عزیز کا سب سے بڑا
فوجی اعزاز نشان حیدر بھی دیا گیا۔ راشد منہاس شہید نشان حیدر پانے والے سب سے کم عمر شہید بھی ہیں۔ قوم کو
اپنے ایسے جواں ہمت شہداء پر ہمیشہ ناز رہے گا۔
سوال :راشد
منہاس کی شہادت کے واقعے کا خلاصہ لکھیے
راشد ابھی ایک بچہ ہی تھا ایک دن بیمار ہو گیا اور کمبائنڈ ملٹری ہسپتال میں
داخل کیا گیا اتفاق سے ملک کے صدر بھی اسی ہسپتال میں تھے ۔اُن کی عیادت کے لیے
فضائیہ کے سربراہ عیادت کے لیے آئے ننھا راشد مچل گیا اُس کے تایا زاد بھائی اُسے
گود میں اُٹھا کر لے گئے تو وہ بہت خوش ہوا اور کہنے لگا
"میں
بھی ائیر مارشل بنوں گا "
راشدمنہاس کو بچپن سےہی فضائیہ سے بہت محبت تھی اُن کے پسندیدہ کھلونوں اور
تصاویر میں جہاز کو اولیت حاصل تھی
راشد کے والد اُنھیں انجینئربنانا چاہتے تھے لیکن بیٹے کی خواہش کے مطابق
اُنھیں فوج میں جانے کی اجازت دے دی راشد 1968 ء میں پاک فضائیہ میں شامل ہوئے اور
تربیت کے لیے کوہاٹ چلے گئے ۔راشد غیر معمولی ذہین تھے اور ان میں کام کی لگن اور
آگے بڑھنے کی صلاحیت بھی غیر معمولی تھی۔15 اگست 1971 ء کو ان کی تعلیم مکمل ہو
گئی اور وہ پائلٹ آفیسر بن گئے ۔
20 اگست بروز جمعہ راشد کی پہلی تنہا پرواز تھی راشد
کو کنٹرول ٹاور سے پہلی کلیئرنس ملی انھوں نے جہاز کو رَن وے پر چلانا شروع کیا
جہاز ابھی رن وے پر تھا کہ انسٹرکٹرفلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمن ٹریک کے نزدیک پہنچ
گیا مطیع الرحمن نے جہاز رکتے ہی جست لگائی اور کاک پٹ میں داخل ہو کر پچھلی سیٹ
پر بیٹھ گیا غدار وطن نے طیارے میں بیٹھتے ہی اپنے دو ساتھیوں کو پیغام دیا
"میں جودھپور
جا رہا ہوں تم میرے بیوی بچوں کے ساتھ ہندوستان
ہائی کمیشن میں تحفظ حاصل کرو"۔
مطیع الرحمن
نے جہاز کا رُخ بھارت کی طرف موڑ دیا ۔راشد نے فیصلہ کر لیا کہ،
"ہم ابد تک زندہ نہیں رہ سکتے
اور موت ایک
بار آتی ہے ۔پھر کیوں نہ یہ زندگی
ہم اپنی ملت
اور وطن پر نچھاور کر دیں ،یہ کرنا
تو آسان ہے۔ "
17 فروری 1951 ء میں کراچی میں پیدا ہونے راشد منہاس نے 20 اگست 1971 ء کو صرف بیس سال کی عمر میں جامِ شہادت نوش کیا ۔راشد منہاس شہید نشانِ حیدر پانے والے سب سے کم عمر شہید ہیں ۔
No comments:
Post a Comment
Please not enter spam links/website links in the comment box . Strictly forbidden.