حضرت طلحہ بن
عبیداللہ رضی اللہ عنہ
غزوات میں شرکت:
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مکے کے لوگ اپنا وطن گھر بار چھوڑ کر مدینہ آگئے
اس بات کا کافروں بہت دکھ تھا کیونکہ ان کے ظلم کے ہاتھ اب مسلمانوں تک نہیں پہنچ
سکتے تھے۔ اب مدینہ کے یہود اور اسلام کے دشمن دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں
کے خلاف سازشیں کرنے لگے اُدھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اللہ کی
طرف سے کافروں کی سازشوں اور زیادتیوں کے خلاف تلوار اُٹھانے کی اجازت مل گئی ۔ جن
غزوات میں طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ
شامل ہوئے ان کی تفصیل یوں ہیں۔
غزوہ بدر:
ہجرت
مدینہ کے دوسرے سال غزوات کا سلسلہ شروع ہوا اور پہلی کفر اور اسلام کی جنگ بدر کی
صورت میں ظاہر ہوئی اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ بدر میں شریک نہ ہو
سکے کیونکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت
سعید رضی اللہ عنہ کو کافروں کی ٹوہ لینے کے لیے شام بھیجا تھا۔ جب آپ واپس لوٹے
تو لڑائی ختم ہو چکی تھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکو مال غنیمت میں حصہ
دیا اور اصحاب بدر میں شامل کیا ۔
غزوہ اُحد:
شوال 3
ہجری میں احد کی لڑائی پیش آئی اس غزوے میں تین ہزاروں کافروں کے سامنے مسلمانوں
کی تعداد سات سو تھی ان سات سو مجاہدین اسلام میں حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ بھی شریک تھے آپ غزوہ بد میں شریک نہ ہوئے تھے لیکن آپ نے غزوہ بدر کی
کمی کو غزوہ احد میں پورا کیا غزوہ اُحد میں حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے جان تک کی بازی لگا دی
زخموں سے چور چور ہو گئے لیکن قدم پیچھے نہ ہٹائے۔
حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلوار کے وار کو ہاتھ پر
روکتے تھے۔ یہاں تک کے آپکے ہاتھ کی انگلی کٹ کر الگ ہو گئی۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہے:
"عن
زبیر قا ل کان سول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوم احد درعان فنحفض الی الضحرۃفلم
یستطیع فاقعد نختہ طلاۃ فصعد البنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول اوجب طلحۃ"
حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ :
غزوہ احد
میں بنی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم پر دو زرہیں تھیں آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم ایک پتھر پر چڑھنے لگے لیکن نہ چڑ ھ سکے چنانچہ طلحہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کو اپنے نیچے بیٹھایا اور چڑھ گئے تو پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کو یہ فرماتے کہ طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے جنت واجب ہو گئی"
جنگ کے دوران کسی نابکار نے ذات قدسی پر تلوار کا وار کیا
خادم جانثار حضرت طلحہ نے اپنے ہاتھ سے وار کو روکا اور انگلیاں شہید ہو گئی تو آہ
کی بجائے زبان سے نکلا "حس" یعنی خوب ہوا۔
اس پر سرور کائنات نے فرمایا:
اگر تم
اس لفظ کی بجائے بسم اللہ کہتے تو ملائکہ آسمانی تم کو اٹھا لے جاتے غرض حضرت طلحہ
دیر تک حیرت انگیز جانثاری اور بہادری کے ساتھ دشمنانِ اسلام سے لڑتے رہے۔
موسی بن طلحہ سے مروی ہے:
غزوہ احد
میں حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پچھتر زخموں کے ساتھ واپس آئے جن میں ایک تو
انکی پیشانی پر چکور تھا اور انکی رگ نس کٹ گئی اور ایک ہاتھ شل ہو گیا تھا۔
عن جابر
بن عبداللہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقل من سرہ ان ینظر الی
ینظر الی شھید یمشی علی وجۃ الرض فلینظر الی طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا :
"جو کسی شہید کو
زمین پر چلتا ہو دیکھ کر خوش ہونا چاہے وہ طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کو دیکھ لے
راہ خدا میں ستر زخم:
ام المونین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہُ سے مروی ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
کہ امیر المومنین خلیفۃالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ
عنہ جب جنگ احد کے دن کو یاد کرتے تو فرماتے :
"وہ سارا دن تو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دن تھا"
مزید فرماتے ہیں اس
دن میں سب سے پیلے حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے
اور ابو عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن جراح کو فرمایا:
اپنے رفیق بھائی حضرت طلحہ بن عبیداللہ کی خبر لو کیونکہ وہ
زخمی ہیں۔ چنانچہ ہم نے حضور کی خدمت کا شرف حاصل کرنے کے بعد حضرت طلحہ کی طرف
رُخ کیا ان کے پاس آئے تو دیکھا کہ ان کے جسم پر تیروں اور تلواروں کے کم و بیش
ستر زخم تھے اور ایک ہاتھ کی انگلیاں بھی کٹی ہوئی تھیں پھر ہم نے انکی خبر لی۔
متفرق غزوات:
غزوہ احد
کے بعد فتح مکہ تک جتنے بھی غزوات ہوئے حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوات میں
نمایاں طور پر شریک رہے اور بیعتِ الرضوان میں بھی تھے۔
فتح مکہ:
ہجرت کے
آٹھویں سال رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فتح مکہ کے لیے دس ہزار صحابہ کرام
کے ساتھ روانہ ہوئے ان اصحابِ رسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سید نا حضرت طلحہ
بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں شامل تھے۔
غزوہ ذی القرد:
غزوہ ذی
القرد کے موقع پر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ایک چشمے پر سے ہوا۔ جس کا
نام "غبان مالح" تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا نام بدل کر
فرمایا یہ نعمان اور طیب ہے۔ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو خرید کر وقف
کر دیا جس پر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
انتیاطلحۃالفیاص
"طلحہ تم تو بڑے فیاض ہو"
غزوہ حنین:
غزوہ
حنین میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارہ ہزار مسلمانوں کو ساتھ لے کر قبیلہ
ہوازن اور ثقیف کے خلاف جنگ کے لیے نکلے۔ اس معرکے میں بھی اُحد کی طرح
مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے لیکن حضرت طلحہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمیت چند بہادر اور ثابت قدم مجاہدین کے استقلال و ثبات
نےصورت حال کو سنبھال لیا اور مجاہدین اسلام نے ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کیا اور اللہ
نے انکو فتح نصیب کی
طلحۃ الجواد کا لقب:
حضرت طلحہ بن عبید
اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔
"غزوہ حنین کے دن حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے طلحہ الجواد کا لقب عطا کیا"
غزوہ تبوک :
9
ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر ملی کہ قیصر و روم بڑے سازوسامان کے ساتھ عرب پر حملہ
آور ہونا چاہتا تھا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ
تعالی عنھم کو تیاری کا حکم دیا اور جنگی اسباب و سامان کے لیے مال و زر صدقہ کرنے
کی ترغیب دی حضرت طلحہ بن عبیداللہ اس موقع پر ایک بیش بہا قیمت پیش کی کے رسول
پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکو "فیاض" کا لقب عطا کیا۔
حجۃ الوداع:
ہجرت کے دسویں سال رسولصلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک لاکھ صحابہ کے ساتھ حج کے لیے مکہ تشریف لے گئے۔ ان ایک
لاکھ صحابہ کرام میں سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے۔
عہد صدیقی میں کردار:
جب سقیفہ بنی ساعد ہ میں
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت ہوئی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
بھی خلیفہ الرسول کی بیعت کی اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت
میں آپ ان کے دست بازوں رہے جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مر ض الموت
ہوئے اور زندگی سےمایوس ہو گئے تو کبائرصحابہ کو اپنے پاس بلا کر ان سے اپنےجانشین
کے بارے میں مشور ہ کیا۔ کبائر صحابہ میں حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت
عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شامل تھے۔
حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:
حضرت عمر آپ کی موجودگی میں
ہم پر سخت گیری کرتے ہیں جب وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہکے سامنے اتنے سخت ہیں تو آپ
رضی اللہ تعالیٰ عنہکے بعدہمارا کیا حال کریں گے؟
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا:
جب عمر فاروق رضی اللہ
تعالیٰ عنہ پر خلافت کا بھارپڑے گا تو آپ نرم ہو
جائیں گئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا
جواب سنا تو مطمئن ہو گئے کیونکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت عمر فاروق رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کی صلاحیت، قابلیت اور علم و فضل پر پورا یقین تھا۔
عہد فاروقی میں کردار:
حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں جو رائے ظاہر کی وہ ذاتی
کشمکش ورنجش کی بنا پر نہیں تھی۔ خلیفہ بننے سے پہلے حضرت عمر فاروق رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نرم مزاج تھے۔ لیکن خلیفہ بننے کے بعد ان کا مزاج بالکل بدل گیا۔ حضرت
طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی دل و جان سے ان کے حامی و مدد گار بن گئے حضرت عمر
فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان کا بہت احترام کرتے تھے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے ان کو اپنی مجلس شوریٰ میں بھی شامل کیا اور ہمیشہ ان کے مشوروں کی
قدر کرتے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ خلافت ساڑھے دس برس ہے۔
اس سارے عرصے میں حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینے میں رہے۔
ایک دفعہ عہد فاروقی میں
مفتوحہ ممالک کی تقسیم کا مسئلہ مجاہدین میں پیدا ہوا۔ تو ایک بڑی نے جماعت اس کی
تائیدکی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور صرف چند صحابہ کو اس سے اختلاف
تھا۔ مسئلہ تین دن تک زیر بحث رہا۔ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے پر آخری فیصلہ ہوا۔
جانشین کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وصیت:
۲ ہجری میں ایک پارسی
غلام ابولولوْ فیروزنے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر قاتلانہ حملہ کیا۔ جس کی
وجہ سے آپ کو گہرے زخم آئے جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچنے کی کوئی امید نہ رہی تو
آپ نے اپنے جانشین کے متعلق وصیت کی تو ان میں حضرت طلحہ بن عبیدہ کا نام بھی تھا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
"حضرت علی رضی
اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ
عنہ سے بڑھ کر کسی کو خلافت کا حق دار نہیں سمجھتا ہوں۔
حضرت طلحۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خلاف کے حق کو چھوڑنا:
۲۳ ہجری
میں جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شہادت پائی تو اس وقت خلافت کے لیے
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو نام نامز د کیے تھے ان میں حضرت طلحہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کا نام بھی تھا۔ لیکن حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا حق
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سرد کر دیا۔
عہد عثمانی میں کردار:
حضرت
عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دورِ خلافت بارہ برس رہا۔ لیکن آخری چھ سالا
دورِ خلافت شورش و بے چینی کیاآماجگاہ بنا رہا۔ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
دربارِ خلافت کو مشورہ دیا کہ تمام ممالک میں وفود روانہ کیے جائیں تاکہ لوگوں سے
جا کر ملا جائے ۳۵ہجری میں محمد بن مسلمہ ، اسامہ بن زید، عماربن یاسر د عبد اللہ
بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مختلف ملک میں روانہ ہوئے ان لوگوں نے ابھی واپس آکر
اپنی تحقیقات کا جو نتیجہ پیش کیا اس پر عمل بھی نہ ہوا تھا کہ مفسد ین نے بارگاہ
ِ خلافت کا محاصرہ کر لیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپن احسانات
، فضائل ، مناقب بیان کیے اور اس کی تصدیق مانگی تو حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نے مفسد ین کے سامنے نہایت بلند آہنگی کے ساتھ اس کی تصدیق کی۔جب مفسدین نے حضرت
عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کا محاصرہ کیا تو حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نے اپنے بیٹے کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حفاظت کے لیے مامور کیا۔
عہدحضرت علی رضی
اللہ تعالیٰ عنہ میں کردار:
حضر ت
عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کی بیعت کی گئی تو ۱۹ ذولحج ۳۵، ہجری اور ہفتے کا دن تھا۔ جب سب سے پہلے حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دائیں
ہاتھ سے جو احد کے روز شل ہو گیا تھا س سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت
کی۔
حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ملاقات:
حضرت
عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت سے قبل حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
حج کی غرض سے مکہ آئی ہوئیں تھیں۔ جب قصاص عثمان کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے کچھ اقدام نہ کیے تو حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زبیر
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ملے تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہا کو مدینہ کے حالات بتائے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خروج پر اکسایا۔ بصر
ہ کی طرف روانگی:
اس کے
بعد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رائے دی کہ اصل مقصد مدینہ کے حالات درست
کرنا ہے اور سبائی جماعت اور قاتلین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گروہ
مدینہمیں ہے لیکن کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ شام کی طرف روانہ ہوں لیکن آخر میں بحث
و تمحیص کے بعد بصرہ جانے کی رائے قرار پائی۔ ۳۵ ھ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہا بصرہ کی طر روانہ ہوئیں جب بصرہ پہنچ گئے تو حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بصرہ کا حاکم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے مقرر
تھا۔ بصرہ میں داخل ہونے سے منع کیا ۔ لیکن حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت
زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا ہم جنگ کے لیے
نہیں بلکے مصالحت کے لیے آئیں ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روانگی:
جب حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت امِ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہا کی بصرہ کی طرف روانگی کی خبر ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کو فہ اور بصرہ کے لیے ساتھ سو اشخاص کے ساتھ روانہ ہوئے۔ ۳۵ ہجری میں آپ بصرہ آئے۔
مصالحت کی کوشش:
جب حضرت
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے لشکر کے ساتھ بصرہ پہنچے اور صلح کی کوشش کی۔ حضرت
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی مجبوری اور مشکلات کو بیان کیا اور صلح کی بات
چیت ابھی چل رہی تھی کہ بد قسمتی سے کچھ انسانوں نے معاملہ بگاڑ دیا اور فسادیوں نے ایسی چال چلی کے رات کے اندھیر میں
دونوں فوجیں آمنے سامنے لڑائی کے لیے تیار ہو کر آگئیں۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ سے گفتگو:
جنگ جمل میں
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت طلحہ بن عبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گفتگو کی
اور کہا
"اللہ سے ڈرو اور اس عورت کی طرح نہ ہو جائو جس نے
اپنے سوت کو مضبوط بٹنے کے بعد توڑ دیا۔ "
کیا میں تم دونوں کے خون کے بارے میں حاکم نہیں؟ کیا تم دونوں میرے خون کو حرام قرار
دیتےہو؟
حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علی سے کہا:
"آپ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عدوات پر متحد
کیا ہے"۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
"اس
روز اللہ تعالیٰ ان کو ان کی صحیح جزا دے گا جب اللہ تعالیٰ قاتلین ِ عثمان پرلعنت کرے گا"۔
پھر فرمایا: اے طلحہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیوی کو لڑنے کے
لیے لے آیا ہے۔ اور تو نے اپنی بیوی کو گھر میں چھپا کر رکھا ہے؟
کیا تو نے میری بیعت نہیں کی؟
اس کے جواب میں حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:
"میں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کی جب کہ
تلوار میری گردن پر تھی"
حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا:
حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یوم الجمل
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے معاملے کے حوالے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔
"اے
اللہ ! آج تو مجھ سے عثمان غنیرضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بدلہ لے لے کہ تو راضی ہو جائے "
شہادت:
حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب لڑائی سے ہاتھ کھینچ
لیا اور بصرہ کی طرف روانہ ہو گئے تو ان کو دیکھ کر حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نے بھی لڑائی سے علیحدہ ہونا چاہا چنانچہ وہ اگلی صفوں سے نکل کر پچھلی صفوں میں جا کر کھڑے ہو گئے اور مروان بن حکم
جو حضرت عثمان کی شہادت کے معاملے میں حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بد ظن
تھا۔ اس موقع کو غنیمت جان کر ایک تیر مارا جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پاؤں میں
لگا جو ان کی قضا کاسبب بنا۔
ایک اور جگہ درج ہے کہ مروان بن حاکم کاایک تیر آپ کی گردن
میں لگا اور ایک تیر کسی اور طرف سے آکر آپ کے گھٹنے پر آلگا۔ اور خون اس طرح جاری
ہوا کہ باوجود کوشش کے بندنہ ہوا۔ جب زخم بند کرتے تو گھٹنافتوام ہو جاتا جب
چھوڑتے تو خون جاری ہو جاتا آخر کار آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اس تو اسے ہی چھوڑ دو یہ خدا ا بھیجا ہوا تیر
ہے۔
تدفین:
حضرت
طلحہ بن عبید اللہ نے ۱۰ جمادی الاول ۳۶ ہجری کو واقعہ جمل میں چونسٹھ برس کی میں
وفات پائی اور آپ کو اسی جنگ کے میدان میں ایک گوشے میں دفن کیا گیا۔
حضرت علیرضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اظہار ِ افسوس!
حضرت طلحہ بن مصرف فرماتے ہیں کہ:
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے
جس وقت ان کا وصال ہوا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سواری اتراتے ہی ان کو بازوں
میں لے کر بٹھایا اور ان کے چہرے سے گرد صاف کی۔ اور داڑھی پر سے غبار جھاڑنے لگے
اور آپ کے لیے دعا کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے:
" کہ کاش میں آج کے دن سے بیس سال پہلے ہی مر گیا
ہوا"
دوبارہ تدفین:
آپ کی جس
جگہ تدفین کی گئی تھی وہ زمین نشیبی تھی اس لیے اکثر غرق آب رہتی تھی ایک شخص
مسلسل تین دن حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خواب میں دیکھا کر وہ اپنی نعش کو
اس قبر سے متنقل کرنے کی ہدایت دے رہے ہیں۔ جب حضرت عبدللہ بن عباس رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے خواب سنا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مکان دس ہزار
درہم میں خرید کر ان کے نعش کو وہاں منتقل کیا دیکھنے والا کا بیان ہے۔
"اتنے دنوں کے بعد بھی ان کا جسم خاکی اس طرح محفوظ تھا جہا ں تک کہ جو آنکھوں میں کافور لگایا تھا وہ بھی بعینہ موجود تھا"
No comments:
Post a Comment
Please not enter spam links/website links in the comment box . Strictly forbidden.